چالیس کی دہائی میں بنی فلم پتنگا کا یہ نغمہ ’’میرے پیا گئے رنگون، وہاں سے کیا ہے ٹیلی فون‘‘ کو اپنی سریلی آواز سے آراستہ کرنے والی گلوکارہ شمشاد بیگم کی جادوئی آواز ان پر مکمل طور سے پوری اترتی ہے، انھوں نے جو بھی گانا گایا اس کی روح میں اتر گئیں۔
خوشی کا گیت گاتے ہوئے وہ ایک الہڑ دوشیزہ بن جاتی ہیں، غم کے گیت دل پر یوں اثر کرتے ہیں کہ جیسے سننے والا بھی اسی کیفیت سے دوچار ہو، قدرت نے انھیں ایسی مدھر اور دلکش آواز دی تھی جو کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔
دلکش آواز کی ملکہ کہی جانے والی شمشاد بیگم کی پیدائش 14 اپریل 1919 میں پنجاب کی امرتسر میں ہوئی تھی ۔
اس دور میں بھونپو اور گراموفون سے اگر کوئی آواز نکلتی تو وہ اسے گانے لگتی تھیں۔
انھوں نے موسیقی کی باقاعدہ تربیت نہیں لی لیکن سروں کی ملکہ بن گئیں۔
موسیقار ماسٹر غلام حیدر کی موسیقی میں محض 13 برس کی عمر میں شمشاد بیگم نے ایک پنجابی نغمہ ’’ہتھ جوڑیا پنکھیا دے‘‘ گایا جو کافی مقبول ہوا۔
اس کے بعد ریکارڈ کمپنی نے ان سے کئی نغمات گوائے۔
اس دور میں شمشاد بیگم کو فی نغمہ ساڑھے 12 روپے ملا کرتے تھے۔
اسی دوران پنجابی فلموں کے مشہور فلمساز دلسکھ پنچولی نے شمشاد بیگم کی صلاحیت کو پہچانا اور انہیں اپنی فلم ’یملا جٹ میں گانے کا موقع دیا۔
اس فلم میں انہوں نے آٹھ نغمے گائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی فلم سے صدی کے ویلن پران نے اپنی اداکاری کا سفر شروع کیا تھا۔